دیہات میں جمعہ کے دن نماز ظہر جماعت سے پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟


السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ دیہات میں جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں ؟
کیا دیہات میں جمعہ کے دن بعد نماز جمعہ ظہر کی نماز جماعت سے پڑھنا جائز ہے؟
اگر دیہات میں جمعہ کی نماز بہ نیت نفل پڑھی جائے تو کیا نفل کیلئے جماعت قائم کرنا کیسا ہے؟
دیہات میں باجماعت ظہر کی نماز ادا کرنے کی صورت میں لوگ اعتراض کرتے ہیں اس کے لیے کیا حکم ہے

*🌹المستفتی محمد اسماعیل چکلوی🌹*
 
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
*📝الجواب بعونہ تعالی⇩* 
*_🎗صورت مسئولہ میں ظاہر الروایت کے مطابق دیہات وگاؤں میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے لیکن ایک روایت نادرہ امام ابو یوسف رحمتہ اللہ تعالی علیہ سے یہ آئی ہے کہ "جس آبادی میں اتنے مسلمان مرد عاقل بالغ ایسے تندرست جن پر جمعہ فرض ہو سکے آبادہوں کہ اگر وہ وہاں کی بڑی سے بڑی مسجد میں جمع ہوں تو نہ سماسکیں یہاں تک کہ انہیں جمعہ کے لئے مسجد جامع بنانی پڑے وہ صحت جمعہ کے لئے شہر سمجھی جائےگی۔_*

*_📖فتاویٰ رضویہ میں ہے: دیہات میں جمعہ ناجائز ہے اگر پڑھیں گے گناہگار ہوں گے اور ظہر ذمہ سے ساقط نہ گا۔فی الدرالمختار فی القنیة صلٰوۃ العید فی القری تکرہ تحریما ای لانه اشتغال بما لایصح لان المصر شرط الصحة۔درمختار میں ہے کہ قنیہ میں ہے کہ عید کی نماز دیہاتوں میں مکروہ تحریمی ہے یعنی نہ ایسی شیئ میں مصروف ہونا ہے جو صحیح نہیں کیونکہ شہر کا ہونا صحتِ عید کے لئے شرط ہے۔اقول فالجمعة اولی لانه فیھا مع ذلک اما ترک الظھر وھو فرض اوترک جماعته وھی واجبة ثم الصلوۃ فرادی مع الاجتماع، وعدم المانع شنیعة اخری غیر ترک الجماعة فان من صلی فی بیته منعز لاعن الجماعة فقدترک الجماعة وان صلوا فرادی حاضرین فی المسجد فی وقت واحد فقد ترکوا الجماعة واتوا بھذہ الشنیعه زیادۃ علیه فیؤدی الٰی ثلث مخطورات بل اربع بل خمس لان مایصلونه لما لم یکن مفترضا علیھم کان نفلاً واداء النفل بالجماعة والتداعی مکروہ ثم ھم یعتقد ونھا فریضة علیھم و لیس کذلک فھذہ خامسة وھذان مشترکان بین الجمعۃ والعیدین۔اقول جمعہ بطریق اولی مکروہ تحریمی ہوگا کیونکہ اس جمعہ کی صورت میں ترک ظہر ہوگا جو فرض ہے یا ترک جماعت ہوگا حالانکہ وہ واجب ہے، باوجود اجتماع اور عدم مانع کے تنہا نماز ادا کرنا ترک جماعت سے الگ خرابی ہے کیونکہ جو جماعت سے الگ گھر میں نماز ادا کرے گا اس نے جماعت ترک کردی اور ایک وقت میں مسجد میں حاضر لوگ تنہا نماز ادا کرتے ہیں تو انھوں نے جماعت ترک کردی اور انھوں نے ایسا عمل کیا جو اس خرابی پر اضافہ ہے پس اب تین بلکہ چار، نہیں بلکہ پانچ ممنوعات لازم آجاتے ہیں کیو نکہ جو نماز انھوں نے ادا کی وہ ان پر فرض نہ تھی بلکہ وہ ان پر نفل تھی اور نفل کو جماعت اور تداعی کے ساتھ اداکرنا مکروہ ہے پھر ان کا اسے اپنے فرض ماننا حالانکہ وہ فرض نہیں یہ پانچویں خرابی ہے اوریہ دونوں چیزیں جمعہ اور عیدین کے درمیان مشترک ہیں۔ (جلد 8 صفحہ 273)۔_*

*_🎗 ہدایہ میں ہے:  ورواية عن الإمام أبي يوسف المصر موضع يبلغ المقيمون فيه عدد الا يسع اكبر مساجد إياهم الهداية وهو اختار البلخي وبه افتي اكثر مشائخ لما رأوا فساد اهل الزمان والولاة ۔ ترجمہ: امام ابو یوسف سے روایت ہے کہ شہر وہ جگہ ہے جہاں کے رہائشی اتنے ہوں کہ وہاں کی سب سے بڑی مسجدان کے لئے ناکافی ہو، ہدایہ میں ہے یہ امام بلخی کا متخار ہے اور فساد زمانہ اور امراء کا فتنہ دیکھتے ہوئے اکثر مشائخ نے اسی پر فتویٰ دیا۔ (ج1  باب الجمعہ 148)۔(2) دیہات میں جمعہ کے دن ظہر کی نماز باجماعت پڑھیں۔ فتاویٰ ہندیہ میں ہے : وَمَنْ لَا تَجِبُ عَلَيْهِمْ الْجُمُعَةُ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى وَالْبَوَادِي لَهُمْ أَنْ يُصَلُّوا الظُّهْرَ بِجَمَاعَةٍ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ ۔ ( ج 1كتاب الصلاة، الباب السادس عشر،فی صلاۃ الجمعة، صفحہ 145)_*

*_📖لہذادیہات میں جمعہ ناجائز ہے اگر پڑھیں گے گناہگار ہوں گے اور ظہر ذمہ سے ساقط نہ گا۔ ہاں اگر اتنے مسلمان آباد ہوں کہ وہاں کی  بڑی مسجد میں نہ سماسکیں تو روایت نادرہ کی بنیاد پر جمعہ کی نماز  پڑھنے سے ہو جائے گی اور اس روز کی ظھر کی نماز ذمہ سے ساقط ہو جائے گی ۔اور اگر  یہ صورت نہ ہو تو وہاں بنام جمعہ نماز نفل ہوگی عوام اگر اسے پڑھیں تو انہیں منع نہ کیا جائے کہ وہ جس طرح بھی اللہ تعالی ورسول کا نام لیں غنیمت ہے اور جب بنام جمعہ دو رکعت نماز نفل ہوگی تو اس کے پڑھنے سے ظھر کی نماز ذمہ سے ساقط نہ ہو گی اس کا پڑھنا فرض اور جماعت کے ساتھ واجب الگ الگ پڑھنا گناہ ۔اور جو لوگ دیہات میں نماز ظہر جماعت کے ساتھ پڑھنے سے اعتراض کرتے ہیں وہ خطا پر ہے وہ توبہ واستغفار کرے اور آئندہ اس طرح کی حرکت نہ کریں۔_*

۔*🌹_ واللہ تعالیٰ اعلم_🌹*
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
 *📝 _کتبــــــــــــــــــــــــــــــــہ_ 📝*
_*محمد مظہر حسین سعدی رضوی ساکن نل باری سونا پوری اتردیناجپور بنگال، خادم شمس العلماء دار الافتاء والقضاء، جامعہ اسلامیہ میرا روڈ ممبئی،*_
*26/ شعبان المعظم 1441ھ* 
*21/ اپریل 2020ء*
 *_رابطــــہ نمبــــر📞 8793969359☎*_ 
〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
◆ــــــــــــــــــ♦⛔♦ــــــــــــــــــ◆
*✅الجواب صحیح والمجیب نجیح ، محمد اختر علی واجد القادری الحنفی عفی عنہ*
ـــــــــــــــــــــــــــــ
*✅الجواب صحیح و المجیب نحیح فقط واللہ اعلم ،محمد تحسین رضاقادری غفرلہ *
♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦♦
  *👈📚 شمس العلماء دارالافتاء📚 👉*
*گروپ میں شامل ہونے کے لیے اس پر رابطہ کریں👇*
*📲+91.8793969359*
*📲+9324085470*
*〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰〰
فتاویٰ اہل سنت سونا پوری؛🌹👇👇*
*رابطہ؛📞8793969359)*
المشتـــہر؛*
 *منجانب؛فتاویٰ اہل سنت سونا پوری؛*

*___________________🖊_________*

*🌹ثواب کی نیت سے اپنے تمام گروپس میں شیئر کیجئے 🌹*

*==========================

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

رافضی؛ تفضیلی؛ ناصبی؛ خارجی کسے کہتے ہیں

سنی لڑکے کا دیوبندیہ لڑکی سے شادی کرنے اور نکاح خواں کا شرعی حکم🖊️*