درسی کتب اور ان کی شروحات میں اغلاط کی چند مثالیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

...........................................
تسہیل المصادر ص 17 ( مطبوعہ مجلسِ برکات) پر  ہے :
'' نشست '' سے ماضی احتمالی مجہول کی گردان کرو ۔
❗'' نشست '' لازم ہے اور لازم سے مجہول نہیں آتا ، اس لئے یہ سوال ہی بیجا ہے
➖➖➖
اسی میں ص 20 پر ''فارسی بناؤ  '' کے تحت ہے :
'' وہ کھڑا کیا جائے ''
❗''کھڑا کرنا '' کی فارسی ''ایستانیدن '' ہے لیکن پوری کتاب میں  کہیں بھی اس کا نشان نہیں ہے ، اس لئے مدارِسِ عربیہ کے طلبہ علی العموم اس کی فارسی ''ایستادہ شود '' بناتے ہیں ، جبکہ یہ سراسر غلط ہے ، اس لئے کہ ''ایستادن '' لازم ہے اس سے مجہول آہی نہیں سکتا
اس کی درست فارسی ''ایستانیدہ شود '' ہے
➖➖➖
اسی میں ص 22 پر ۔ اردو میں ترجمہ کرو ۔کے تحت ہے :
''رسیدہ خواہد شد ''
❗'' رسیدن '' مصدرِ لازم ہے ، اس سے مجہول نہیں آسکتا ، لہذا '' رسیدہ خواہدشد '' کہنا ہی غلط ہے ، چہ جائے کہ اس کا اردو میں ترجمہ کیاجائے
➖➖➖
اسی میں ص 25 پر ''فارسی بناؤ '' کے تحت ہے :
'' چاہیے کہ وہ نہ پلائے جائیں ''
❗متعلقہ درس تک '' پِلانا '' کی فارسی نہیں آئی ہے ، اس لئے طلبہ اس کی فارسی '' باید کہ ننوشیدہ شوند'' بتاتے ہیں ، جبکہ یہ بالکل غلط ہے ، اس لئے ''نوشیدن '' لازم ہے اس سے مجہول نہیں آسکتا۔
اس کی درست فارسی '' باید کہ ننوشانیدہ شوند '' ہے
🌱🌱🌱🌱🌱🌱🌱

بوستان سعدی ص 21(مطبوعہ مجلس برکات) پر ہے:
زہے چشمِ دولت بروئے تو باز
ہمہ شہریارانِ گردن فراز
❗بوستاں کے متعدد نسخوں میں دوسرا مصرع اس طرح ہے :
سرِ شہر یارانِ گردن فراز
اور یہی درست ہے
دوسرے مصرع میں "ہمہ" کو باقی رکھتے ہوئے کسی بھی تاویل سے درست معنی حاصل نہیں ہوسکتے
ظاہر یہ ہے کہ : سرِ شہر یارانِ گردن فراز! منادی ہے اور معنی یہ ہیں کہ اے بلند گردن بادشاہوں کے سردار! کیا ہی اچھی بات ہے کہ حکومت کی آنکھ تیری جانب کھلی ہوئی ہے اور تجھے دیکھ رہی ہے
➖➖➖
گلستان سعدی ص 225 (مطبوعہ مجلس برکات) پر ہے :
میانِ دوکس آتش افروختن
نہ عقل ست خود درمیاں سوختن

ایرانی نسخوں میں "نہ عقل ست" کے بعد واو عاطفہ بھی مذکور ہے یعنی :
نہ عقل ست و خود درمیاں سوختن
اور یہی درست ہے، معنی یہ ہیں کہ دو شخصوں کے درمیان آگ جلانا اور خود بیچ میں جلنا عقل مندی نہیں ہے
➖➖➖
فارسی کی دوسری میں "سیر دریا" کے تحت ہے :
روزے ہنگامِ شام خورد رعد وبرق از سمتِ مغرب پیدا و ہوا تاریک شدہ
اس کا ترجمہ فارسی کی دوسری مترجم (مطبوعہ سراج پبلیکیشنز دہلی) میں اس طرح سے ہے :
"ایک دن شام کے وقت کھانا کھایا کہ بجلی کی چمک اور کڑک پچھم کی طرف سے شروع ہوئی اور فضا تاریک ہوگئی "
❗❗مترجم نے مذکورہ عبارت میں" خورد " کو فعلِ ماضی سمجھ لیا حالانکہ اس صورت میں اسے بجائے" خورد "خوردیم" ہونا چاہیے
اور حقیقت یہ ہے کہ "خورد" یہاں حاصلِ مصدر ہے خوردن کے معنی میں_
سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان  اسے حاصلِ مصدر استعمال کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
کارِ مردانت صیام است و قیام
کامِ مادرخوردِبام و خوابِ شام

یا پھر وہ "خوردن" ہی ہے جو سہوِ کتابت سے"خورد"ہوگیاہے
لغت نامہ دہخدا میں ہے :
شام خوردن.(مص مرکب) : طعام خوردن در اول شب . (ناظم الاطباء). طعام شب خوردن .
اس کے پیشِ نظر "ہنگامِ شام خورد" کے معنی ہیں :شام کا کھانا کھاتے وقت / رات کا کھانا کھانے کے وقت
➖➖➖

فیض الادب حصہ اول میں "جملہ اسمیہ استفہامیہ" کے تحت ہے :
ماھذا ؟
من انت؟
متی ذهاب زید؟
کیف مزاجُ عمرو؟ 
این السکین؟
کم مالُ زیدٍ
❗❗فیض الادب کی شروحات میں اِن جملوں میں اَسماءِ استفہام کو مبتدا بنایا گیا ہے جبکہ ان تمام جملوں میں اَسماءِ استفہام مسند ہیں نہ کہ مسند اِلیہ اور مبتدا وہی ہوسکتا ہے جو مسند اِلیہ ہو
مثلًا ما ھذا؟ کا جواب ہے :ھذا کتابٌ
اس جواب سے پتہ چلتا ہے کہ خبر "ھذا"کے بارے میں پوچھی گئی ہے، اسی وجہ سے حکم بھی اسی پر لگا ہے، لہذا سوال و جواب دونوں میں اس کا مسند اِلیہ و محکوم علیہ ہونا طے ہے
دریں صورت یہاں "ھذا“کے بجائے" ما "کو مبتدا بنانا کسی طرح بھی جائز نہیں
یہی حال" من انت "کا بھی ہے، اگر یہ ضوابط یاد رکھیں تو اس طرح کی غلطی سے محفوظ رہیں گے
1➖جب" من اور ما"کا مابعد جملہ اسمیہ یا شبہ جملہ ہو تو دونوں مبتدا ہوں گے جیسے :
من بيته قريب
من في البيت
ما جسمه أسود
ما في البيت

2➖جب "من اور ما" کا ما بعد جملہ فعلیہ ہو تو وہ یاتو مبتدا ہوں گے یا مفعول بہ
جیسے :
من جاء
من رأيت
ما جاء بك
ما رأيت
3➖جب "من اور ما" کا ما بعد اسم ہو تو دونوں خبرِ مقدم ہوں گے
جیسے:
من ھذا
ما الکتاب
*نوٹ*"من عدوُّک" میں "من" خبرِ مقدم ہے اس لئے کہ اس کا جواب مثل "عدُوّی زیدٌ" ہے
 اور "من عدوٌّ لك" میں "من" مبتدا ہے اس لئے کہ اس کا جواب "زیدٌ عدوٌّ لی" ہے
🖌متی ذهابُ زیدٍ کا جواب ہے :ذھابُ زیدٍ قریب
اس سے صاف ظاہر ہے کہ "متی" یہاں خبرِ مقدم ہے
اس لئے کہ "ذھ

ابُ زیدٍ" سوال و جواب دونوں میں مسند الیہ ہے اور مسند الیہ خبر نہیں ہوسکتا

یہی حال بقیہ اسماءِ استفہام کا بھی ہے کہ ان میں کوئی بھی مبتدا نہیں بلکہ سب خبرِ مقدم ہیں
💙💚💙💚💙💚💙💚

فیض الادب حصہ اول میں مفعول بہ باسمائے استفہام کے تحت ہے :
کیف نسمع
کیف فعل ربک
❗❗کشف الادب میں دونوں جگہ "کیف" کو مفعول فیہ مقدم بنایا ہے
اور ضیاء الادب میں دونوں جگہ اسے مفعول بہ مقدم بنایا ہے
*جبکہ*راجح قول کے مطابق "کیفَ" کی صرف دو صورتیں ہیں یاتو وہ خبر ہوگایا حال
اور مذکورہ دونوں جملوں میں اس کا حال ہونا متعین ہے
خبر کی مثال جیسے :
کیف انت (خبرِ مقدم)
کیف کنت(خبرِ فعلِ ناقص)
اور حال کی مثال جیسے :
کیف جئت
التطبيق النحوی للراجحی میں ہے :لِ "کیف" إذن اعرابان لیس غیر - 1-تکون حالا إذا کان بعدھا فعل تام - 2-تکون خبرا مقدما إذا کان بعدھاإسم أو فعل ناقص
ابن ہشام کے نزدیک "الم تر کیف فعل ربک بأصحاب الفیل" جیسی مثالوں میں "کیف" مفعول مطلق بھی بن سکتا ہے
اور ایک قول یہ ہے کہ "کیف" کے بعد جب فعلِ قلبی ہو تو "کیف" اس کا مفعول بہ ثانی ہوگا جیسے "کیف تظن الأمر غدا / کیف وجدت الجنود
🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
فیض الادب حصہ دوم میں مؤکد و تاکید کے سبق میں "اردو جملوں کی تعریب کرو" کے تحت ہے
"خود زید کو میں سزا دوں گا "
❗❗اس جملےمیں لفظِ"خود " زید کی بھی تاکید ہوسکتا ہے اور" میں "کی بھی تاکید ہوسکتا ہے
اس لئے اس کی عربی دو طرح ممکن ہے :
1_اُعاقِبُ زیدًا نفسَه
2_اعاقب انا نفسی زیدا/اعاقب انا عينى زيدا__ واضح رہےکہ ضمیر مرفوع متصل کی ضمیر منفصل سے تاکید لائے بغیر لفظ" نفس و عین " سے تاکید جائز نہیں
لہذا جن شارحین نے اس کی کی عربی" اعاقب نفسی زیدا "بنائی ہے وہ صریح غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں
➖➖➖

دروس البلاغہ میں فصاحت کی لغوی تعریف کے بعد ہے : وتقع فی الإصطلاح وصفا للکلمۃ والکلام والمتکلم_ یعنی فصاحت اصطلاح میں کلمہ، کلام اور متکلم کی صفت واقع ہوتی ہے
❗❗بعض شارحین نے فرمایا کہ یہ فصاحت کی لغوی تعریف کے بعد اس کی اصطلاحی تعریف ہے یعنی فصاحت اصطلاح میں اس  چیز کو کہتے ہیں جو کلمہ، کلام اور متکلم کی صفت واقع ہوتی ہے
*اقول*یہ فصاحت کی اصطلاحی تعریف نہیں بلکہ یہ اس کی تعریف سے پہلے اس کی تقسیم ہے اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اصطلاح میں فصاحت تین الگ الگ معنوں کیلئے بولا جاتاہے اور اس کی کوئی ایسی تعریف ممکن نہیں جو تینوں معنوں کو شامل ہوجائے
اس لئے تینوں معنوں (فصاحت کلمہ، فصاحت کلام اور فصاحت متکلم) کی الگ الگ تعریف کی ہے
➖➖➖

مناظرہ رشیدیہ میں "مدعی" کی تعریف کے تحت ہے :
ثم عرف مولانا عصام الملة والدين في شرحه للرسالة العضدية *المدعي* بقوله :هو من يفيد مطابقة النسبة للواقع_ وقيل فيه نظر، إذ هو يصدق على كل قال بجمل..... الخـــ
❗❗بعض شارحین یہاں '' بِجُمِلٍ '' کو یُحمَلُ  سمجھ کر خود بھٹکے اور جانے کتنے طلبہ کو بھی بھٹکادیا
➖➖➖

معلم الانشاء حصہ اول میں تمرین نمبر 6 کے تحت ہے :
"مندرجہ ذیل الفاظ سے مرکب توصیفی کے جملے لکھو "
اسی کی تمرین نمبر 16 کے تحت موصوف و صفت سے مرکب 6_6جملے لکھنے کو کہا گیا ہے
❗یہاں سوال یہ ہےکہ خالص مفردات و مرکبات ناقصہ کے درس و تدریب کے درمیان جملوں کے مباحِث سے کیا کام؟
یہ تو خود مزاجِ کتاب کے بھی خلاف ہے
ہر چند کہ جملہ بسا اوقات مجموعہ و مرکب کو کہا جاتاہے، اس اعتبار سے مرکب ناقص کو جملہ کہا جاسکتا ہے تاہم  فن نحو کے اِجرا کی کتاب میں جملہ بول کر مفرد (مرکب ناقص) مراد لینا کسی طرح قرینِ قیاس نہیں،
➖➖➖

ہندوستان میں مجانی الأدب کے مروجہ نسخے میں ص 4 پر ہے :
لأن الأشياء بعلمه ظهرت بقدرة انتشرت و إنه تعالى يعلم عدد الرمال والقفار و قطرات الأمطار وورق الأشجار و غوامض الأفكار و ذرات الرياح والهواء في علمه ظاهرة مثل عدد نجوم السماء
❗❗ اس عبارت میں کئی غلطیاں در آئی ہیں، ناچیز کے پاس مجانی الأدب کا حرکات و سکنات سے آراستہ ایک قدیم اور تصحیح شدہ نسخہ ہے جو 1916 عیسوی میں انوار احمدی پریس الہ آباد سے چھپاہے ، اس میں مذکورہ عبارت اس طرح سے ہے :
 لأن الأشياء بعلمه ظهرت و بقدرته انتشرت و إنه تعالى يعلم عدد رمال القفار و قطراتِ الأمطار و ورق الأشجار و غوامض الأفكار و إن ذراتِ الرياح والهواء ظاهرة في علمه مثل عدد نجوم السماء ✔
الفاظ و معنی کے لحاظ سے یہ عبارت درست ہے
➖➖➖

ازہار العرب ص 12 پر ہے :
العلم یحیی قلوب الميت كما تحيا البلاد إذا ما مسها المطر
❗یہ شعر بحر بسیط میں ہے اور وزن 2 بار مستفعلن فاعلن مستفعلن فعلن ہے➖ مستفعلن خبن سے مفاعلن ہوجاتاہے
اس کے پیشِ نظر پہلا مصرع یاتو :
"العلم یحیی قلوب الميّتین کما" ہوگا
یا پھر
"العلم یحیی القلوب المیتات کما"
ہوگا
➖➖➖
ایک بچہ تسہیل المصادر سے "وہ کھڑا کیا جائے" کی  فارسی پوچھنے آیا تو یہ چند مثالیں بروقت ذہن میں آئیں جنھیں افادۂ عام کیلئےیہاں پیش کردیا ، 
ــــــ۔ــــــــــــــــ
ــ
از  :۔ محمدمشاہدرضا عبیدالقادری

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

رافضی؛ تفضیلی؛ ناصبی؛ خارجی کسے کہتے ہیں

دیہات میں جمعہ کے دن نماز ظہر جماعت سے پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟

سنی لڑکے کا دیوبندیہ لڑکی سے شادی کرنے اور نکاح خواں کا شرعی حکم🖊️*