خودی کو کربلنداتنا کہ ہرتقدیرسےپہلے۔ الخ، ڈاکٹر اقبال کے اس شعرمیں کوئی شرعی قباحت ہے یا نہیں ؟

*🌹 خودی کو کربلنداتنا کہ ہرتقدیرسےپہلے۔ الخ، ڈاکٹر اقبال کے اس شعرمیں کوئی شرعی قباحت ہے یا نہیں؟🌹*
ا________(💚)______________

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین درج ذیل شعر کے تعلق سے کہ یہ شعر پڑھنا کیسا
خودی کو کر بلند اتنا ہر تقدیر سے پہلے، خدا بندے سے خود پو چھے بتا تیری رضا کیا ہے
براے کرم تحقیقی اور مدلل جواب عنایت فرمائیں بہت ہی کرم ہو
المستفتی:::::محمد تنظیم رضا ،پورنیہ بہار
ا________(💚)______________
*وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ و برکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوھاب*

*اردو زبان میں لفظ " خودی " کے کئی معانی ہیں*

چنانچہ فیروزاللغات میں ہے

*🖋️" خودی :۔ اپنا آپ ، انانیت ، غرور، تکبر ، خودشناسی ، معرفت نفس "*

*📕(حرف الخاء ، ص۵۹۹ ، مطبوعہ: فیروزسنز ، لاہور ، طبع اول:۲۰۱۰ء)*

*کلام اقبال کے جملہ شارحین کا اس بات پر اتفاق ہےکہ اس شعر میں لفظ خودی " انانیت و غرور وتکبر " کے معنی میں نہیں بلکہ " معرفت نفس " کے معنی میں ہے ،*

*اور معرفت نفس احکام شرعیہ کا بنیادی و مرکزی نقطہ ہے ،*

چنانچہ امام اعظم امام ابوحنیفۃ النعمان بن ثابت کوفی متوفی ۱۵۰ھ نے فقہ کی تعریف ان الفاظ میں فرمائی ہے

*🖋️" الفقه معرفة النفس مالها وما عليها "*

*📕(المنثور فی القواعد ، لبدرالدین الزرکشی ، مقدمۃالمؤلف ، ۱/۶۸ ، شرکۃ دارالکویت للصحافۃ ، الطبعۃالثانیۃ:۱۴۰۵)*
یعنی، نفس کا اپنے نفع ونقصان کو پہچان لینے کا نام فقہ ہے

اور مفسرین کرام نے الله تعالى کے فرمان: *وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ* {الذاریات ۵۶} ترجمہ: اور میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی(اسی لئے)بنائے کہ میری بندگی کریں ) کی تفسیر میں فرمایا

*🖋️" أي ليعرفون كما روي عن ابن عباس وغيره "*

*📕(تفسیرالملا علی القاری ، ۵/۳۵ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت، الطبعۃالاولی:۱۴۳۴ھ)*
یعنی ، لیعبدون کا مطلب ہے لیعرفون تاکہ وہ میری معرفت حاصل کریں جیساکہ حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما سے مروی ہے ،

اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا

*" وَ فِیْۤ اَنْفُسِكُمْؕ-اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ "*

*📔(القرآن الکریم ، ۵۱/۲۱)*
ترجمہ: اور خود تمہاری ذاتوں میں ،تو کیا تم دیکھتے نہیں ،

اور ایک روایت میں ہے

*🖋️" من عرف نفسه فقد عرف ربه "*

*📕(المقاصدالحسنۃ ، رقم الحدیث:۱۴۵۹ ، ص ۴۱۹ ، دارالکتب العلمیۃ ، الطبعۃالاولی:۱۳۹۹)*
ترجمہ: جس نے خود کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا

اس کی علت بیان کرتے ہوئے علامہ علی قاری حنفی متوفی ۱۰۱۴ھ فرماتے ہیں

*🖋️" أي آيات ودلالات إذ ما في العالم شيء إلا وفي الإنسان له نظير "*

*📕(انوار القرآن و اسرارالفرقان ، سورۃ الذاریات ۲۱ ، ۵/۲۹)*
یعنی ، نشانیاں اور دلالتیں ، کیونکہ کائنات میں کوئی چیز نہیں جس کی نظیر انسان کے اندر نہ ہو ،

*غرض کہ اپنی ذات کا ادراک و عرفان بندے کو معرفت الہی تک پہونچا دیتا ہے ، اسی بات کو ڈاکٹر اقبال مرحوم اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے ،*

*اور یہ بات بھی ثابت ہےکہ بعض مقربین بارگاہ اس درجہ قرب پر فائز ہوتے ہیں کہ رب تعالٰی ان کی رضا میں راضی ہوتا ہے*

چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے

*" قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا۪ "*

*📔(القرآن الکریم ، ۲/۱۴۴)*
ترجمہ: ہم تمہارے چہرے کا آسمان کی طرف باربار اٹھنا دیکھ رہے ہیں تو ضرور ہم تمہیں اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس میں تمہاری خوشی ہے ،

اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا

*" وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ "*

*📔(القرآن الکریم ، ۹۳/۵)*
ترجمہ: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے ،

*اور یہ رضا چاہنا صرف نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے امت کے بعض حضرات کو بھی یہ شرف حاصل ہے*

*چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے*

*" سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ(۱۷)الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَكّٰىۚ(۱۸) وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ(۱۹)اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰىۚ(۲۰)وَ لَسَوْفَ یَرْضٰى۠ "*
*📔(القرآن الکریم ، سورۃ اللیل)*
ترجمہ: اور بہت جلداس سے دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہیزگار ۔جو اپنا مال دیتا ہے کہ ستھرا ہو اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہیں جس کا بدلہ دیا جائے صرف اپنے رب کی رضا چاہتا جو سب سے بلند ہےاور بے شک قریب ہے کہ وہ راضی ہوگا ،

*جملہ مفسرین کرام کے نزدیک ان آیات میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ مراد ہیں*

چنانچہ امام علاء الدين علي بن محمد بن البغدادي الشهير بالخازن متوفی ۷۲۵ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وهو أبو بكر الصديق في قول جميع المفسرين "*

*📕(تفسیرالخازن ، سورۃ اللیل ، ۴/۴۳۵ ، دارالکتب العلمیۃ بیروت ، الطبعۃالاولی:۱۴۲۵ھ)*
یعنی ، تمام مفسرین کے قول میں مراد حضرت ابوبکر صدیق ہیں ،

اور علامہ علی قاری حنفی حضور سیدنا غوث الاعظم جیلانی رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ

*🖋️" یقال لی یاعبدالقادر تکلم نسمع منک ، یاعبدالقادر بحقی علیک کُلّ ، بحقی علیک اشرب ، بحقی علیک تکلم ، و آمنتک من الرد "*

*📕(نزھۃ الخاطرالفاتر ، ص۷۲ ، مؤسسۃ الشرف لاہور)*
یعنی ، غوث اعظم فرماتے ہیں کہ مجھے کہا جاتا ہے کہ ائے عبدالقادر ! کلام کر ہم تمہاری بات سنیں گے ، ائے عبدالقادر ! تجھے میرے حق کی قسم ! کھا ، تجھے میرے حق کی قسم ! پی ، تجھے میرے حق کی قسم ! بات کر ، میں نے تجھے رد کرنے سے محفوظ کردیاہے ،

*نیز " ہرتقدیر " سے مراد مطلق تقدیر نہیں بلکہ تقدیر مشابہ بہ مبرم یا تقدیرمعلق ہے ، جس کے بارے میں فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ مقربین بارگاہ کی ان تک رسائی ہوتی ہے*

چنانچہ صدر الشریعہ علامہ امجدعلی اعظمی حنفی متوفی ۱۳۶۷ھ فرماتے ہیں

*🖋️" وہ جو مبرم حقیقی ہے اس کی تبدیل ناممکن ہے، اکابرمحبوبان خدا اگر اتفاقا اس بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو انھیں اس خیال سے واپس فرمادیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ اور وہ جو ظاہر قضاۓ معلق ہے، اس تک اکثر اولیا کی رسائی ہوتی ہے ، ان کی دعا سے ، ان کی ہمت سے ٹل جاتی ہے اور وہ جو متوسط حالت میں ہے، جے صحف ملائکہ کے اعتبار سے مبرم بھی کہہ سکتے ہیں، اس تک خواص اکابر کی رسائی ہوتی ہے ۔ حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اسی کو فرماتے ہیں: ”میں قضاۓ مبرم کو رد کر دیتا ہوں "*

*📕(بہار شریعت ، مقدمہ کتاب ، عقائد کابیان ، رقم العقیدۃ: ۲۴ ، ۱/۱۲,۱۴ ، المدینۃالعلمیۃ کراتشی)*

*فلہذا مجھ فقیر قادری برکاتی کے نزدیک ڈاکٹر اقبال کا یہ شعر تصوف کا شعر ہے اور اس کے اندر بظاہر کوئی شرعی قباحت نہیں ہے ، نہ لفظ خودی کی بنا پر محل اعتراض ہے نہ لفظ " ہرتقدیر" پرکوئی قدغن ، کہ تقدیرسے مراد مبرم حقیقی نہیں جس میں تبدیلی محال ہے ، بلکہ مشابہ بمبرم و تقدیر معلق ہے اور یہ مقربین بارگاہ کو باذن اللہ تعالیٰ حاصل ،*

*ھذا ماظھرلی والعلم الحقیقی عندربی*
*والله تعالیٰ اعلم باالصواب*
ا________(💚)______________
*کتبہ ۔۔۔*

*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی*
*شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۱۷/محرم الحرام ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۶/اگست۲۰۲۲ء*
ا________(💚)______________
*الجواب صحیح والمجیب نجیح٫ عبدہ محمد عطاء اللہ النعیمی عفی عنہ ٫خادم الحدیث والافتاء بجامعۃ النور٫ جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی*
ا________(💚)______________
*الجواب صحیح والمجیب نجیح,عبدہ محمد جنید العطاری النعیمی عفی عنہ,دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
ا________(💚)______________
*الجواب صحیح والمجیب نجیح،عبدہ محمد عرفان العطاری النعیمی غفر لہ،دارلافتا کنزالاسلام،جامع مسجد الدعا،پاکستان،کراچی*
ا________(💚)______________
*الجواب صحیح*
*محمد مہتاب احمد النعیمی غفرلہ ، دارلافتاء جامعة النور,جمعیت اشاعت اہلسنت(پاکستان) کراچی۔*
ا________(💚)______________

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

رافضی؛ تفضیلی؛ ناصبی؛ خارجی کسے کہتے ہیں

دیہات میں جمعہ کے دن نماز ظہر جماعت سے پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟

سنی لڑکے کا دیوبندیہ لڑکی سے شادی کرنے اور نکاح خواں کا شرعی حکم🖊️*